Social media has revolutionized the world in the past 10 years, and the way people communicate is changing in multiple ways. People are using social media to stay in touch with friends and family, but they're also using it to express themselves. In this blog post, we'll show you how to use social media to express your creativity and share your voice with the world. It's important to remember, however, that your social media presence is a window into your personality, and that when you communicate with people on social media, you're actually communicating with them in real life. In this blog post, we'll show you some useful tricks to help you succeed with social media.
Download Sad Poetry for WhatsApp Status
اب کہاں ہوں،کہاں نہیں ہوں میں
جس جگہ ہوں،وہاں نہیں ہوں میں
کون آواز دےرہاہےمجھے؟
کوئی کہہ دو،یہاں نہیں ہوں میں
بہت سے عشرت نو روز و عید میں ہیں مگن
بہت وہ ہیں جو فریب امید میں ہیں مگن
زمانہ مست ہے انسان کا لہو پی کر
ہم اپنے خون جگر کی کشید میں ہیں مگن
دل کو برباد کئے جاتی ہے
غم بدستور دیے جاتی ہے
مر چکیں ساری امیدیں اخترؔ
آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
دل تو روئے مگر میں گائے جاؤں
روح تڑپے میں مسکرائے جاؤں
شعر کہتا رہوں یونہی اخترؔ
بات بگڑی ہوئی بنائے جاؤں
دل حسرت زدہ میں ایک شعلہ سا بھڑکتا ہے
محبت آہیں بھرتی ہے تمنائیں ترستی ہیں
کوئی دیکھے بھری برسات کی راتوں میں حال اپنا
گھٹا چھائی ہوئی ہوتی ہے اور آنکھیں برستی ہیں
ایک صبر آزما جدائی ہے
ملنے جلنے کی بند ہیں راہیں
میں نے اس ماہ رو کی گردن میں
ڈال دی ہیں خیال کی باہیں
فضا ہے نور کی بارش سے سیم گوں اس وقت
جہان مست پہ طاری ہے اک سکوں اس وقت
نہ چھیڑ درد جدائی کی داستاں اے دل
مجھے خبر نہیں میں کس کے پاس ہوں اس وقت
فضا امڈی ہوئی ہے اک چھلکتے جام کی مانند
ہوا مخمور ہے بادل غریق رنگ و مستی ہیں
مرا سرشار دل مجھ سے یہ کہتا ہے کہ اے اخترؔ
یہ بوندیں پڑ رہی ہیں یا تمنائیں برستی ہیں
فدائے منزل بے جادہ ہیں خدا رکھے
خراب ساغر بے بادہ ہیں خدا رکھے
ہماری حسن پرستی بھی خوب شے ہے کہ ہم
حسیں غموں کے بھی دل دادہ ہیں خدا رکھے
شرم،دہشت،جھجھک،پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ،وہ،جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
اس کے اور اپنے درمیان میں اب
کیا ہے بس روبرو کا رشتہ ہے
ہائے وہ رشتہ ہائے خاموشی
اب فقط گفتگو کا رشتہ ہے
وہ کسی دن نہ آ سکے پر اسے
پاس وعدے کو ہو نبھانے کا
ہو بسر انتظار میں ہر دن
دوسرا دن ہو اس کے آنے کا
یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال
متاع جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح
گذشتہ سال انہیں میں نے گن کے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم
جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے
وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم
حاکم وقت کو مسند سے اتارا جائے
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
تپتے دل پر یوں گرتی ہے
تیری نظر سے پیار کی شبنم
جلتے ہوئے جنگل پر جیسے
برکھا برسے رک رک تھم تھم